Friday 15 April 2016

کہتے ہیں کہ اگر کسی ٹریکر کو ایک دفعہ کوہ ہمالیہ جانے کی لَت َلگ جائے



کہتے ہیں کہ  اگر کسی ٹریکر کو ایک دفعہ کوہ  ہمالیہ جانے کی لَت َلگ جائے تو وہ اپنی  تمام عمر ٹریکنگ نہیں چھوڑ  سکتا   ۔  کچھ ایسا ہی ہمارے ساتھ ہوا۔  دسمبر 2014  جب  موسٰی کا مصلحہ کے ٹاپ سے  اس دیو ہیکل  پہاڑ کو دیکھا تو دِل ہی دِل میں اس کو سر کرنے کا خیال دِل میں   مچلنے لگا۔اور اس خیال نے  پھر اُس وقت تک  چین سے بیٹھنے نہ دیا جب تک ہم نے اسکو سر نہ کر لیا۔

ارادہ یہ تھا کہ ہم نے وِنٹر سیزن 2015 میں سب سے  پہلے مکڑا چوٹی کو سَر کرنا ہے۔اور  اس   مقصد کے حصول کے لئے مہم جوئی  موسٰی کا مصلحہ سے واپسی کے اگلے دِن ہی شروع ہو گئی۔ چاہتے نہ چاہتے ہوئے  انجینئرنگ کے مِڈ ٹرم ایگزام دیئے  اور یو-ای-ٹی سےراہِ فرار اختیار کر کیمپنگ کا ضروری سامان پیک کیا اور ضلع مانسہرہ کےگاوں کیوائی آ پہنچے۔
شام کے وقت  کیوائی سے ٹریکنگ سٹارٹ کی تو  لگ بھگ  دو سے ڈھائی گھنٹے بعد ہم تین دوست مغرب کے وقت شوگراں پہنچ گئے۔ آف سیزن کی وجہ سے شوگران کے زیادہ تر ہوٹل بند  تھے،  رات  کھلے آسماں تلے   خیموں میں گزارنے کے بعد  صبح چند مقامی ہوٹل مالکان سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے پوچھا صاحب آپ اتنی شدید سردی میں یہاں کیا کرنے آئے ہیں تو  میرے دوست ناصرکی طرف سے جواب ملا کہ ہم  مکڑا سر کرنے آئے ہیں۔ جتنا نان کوآرپوریٹیو بیحیویر  ہمیں شوگران کے ان ہوٹل مالکان  کی طرف سےمِلا اُتنا شاید ہی کسی سے مِلا ہو۔ کسی نے کہا اوپر  اتنی سردی ہے کہ جم جاو گے، کسی نے کہا کہ آج کل گلیشئر گِر رہے ہیں گلیشئرز کے نیچے دب جاو گے، کسی نے کہا وہاں آرمی کے کمانڈوز گیئے تھے اور  اُنکی ڈیڈ باڈیذ  ابھی تک نہی مِل سکیں، کسی نے کہا کہ اگر زندگی عزیز ہے تو اوپر مت جاو۔  موسم کی شدت اور   انکی باتیں سن کر ہمارےذہن میں کھٹکا ضرور پیدا ہوا مگر شوقِ آوارگی تھی کہ  چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی تھی۔
علی اَلصبح ٹریکنگ شروع کی تو تقریباَ 9ََ   گھنٹے کی سنو  ٹریکنگ کے بعد پائے میڈوز  پہنچ گئے۔ پائے میں اُس وقت 3 سے 4 فٹ تک برف تھی،رات سونے کے لئے کیمپ لگایا،  آگ جلا کے  برف پگھلائی ، آدھا  پانی پینے کے لئے سٹور کر لیا اور آدھے پانی میں ڈِنر کے لئے نوڈلز   بنانے لگے، دِن بھر کی تھکاوٹ کے بعد   رات کو  اپنے ہاتھ سے  نوڈلز   بنا کر کھانے میں جو لذت آئی وہ  لذت  نہ کبھی   لا ہور کے لکشمی چوک کی بٹ کراہی دے سکی نہ ہی کبھی  پشاور کی نمک منڈی کا  چرسی تِکہ ۔
رات کو سونے کے لئے جب ہم  تینوں نے اپنے اپنے  سلیپنگ بیگ کھولے تو معلوم ہوا   کہ ہمارا یک دوست  تواپنا  سلیپنگ بیگ شوگران میں ہی کہیں بھول آیا ہے، اب ہمارے لئے صورتِ حال  ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی تھی، کیونکہ ہم بندے تین تھے  اور ہمارے پاس  سونے کے لیے سلیپنگ بیگ دو تھے۔بَحرحال جیسے کیسے ہی سہی، رات گزر ی خدا خدا کر کے ۔ رات کے منفی درجہ حرارت میں کیمپنگ کرنے کے بعد  جو مناظر ہمیں  صبح دیکھنے کو  ملے انہوں نے رات کی ساری صہوبتیں بھلا دیں،شاید وہ میری زندگی کی سب سے خوبصورت صبح تھی    جب    وادی کشمیر،ناران ، سرن اور کوہستان  کی تمام  پہاڑیں برف کی سفید چادر اوڑھے گہری نیند سو رہی تھیں اور سورج کی  پہلی کرنیں  برف سے ڈھکے مکڑا  پہاڑ کی کو کچھ اس طرح  چمکا رہی تھیں   کہ جیسے  پورے کا پورا  پہاڑ  سونے کا بن گیا ہو۔
ہماری اگلی منزل مکڑا کی چوٹی تھی، شروعات میں تو ٹریکنگ آسان تھی مگر سورج کی حرارت تیز ہونے کے ساتھ ساتھ   برف  نرم ہوتی گئی اور پہاڑکی ڈھلوان بڑھتی گئی۔ نرم برف  میں ٹریکنگ کرنا  تو قدرے مشکل ہوتا ہے مگر اِرد  گِرد کے دِلکش مناظر نے نہ  توہمیں تھکاوٹ محسوس ہونے دی نہ دِقت۔ 7 گھنٹے کی لگاتار مہم جوئی کے بعد بالاخر مکڑا کو سر کرنے میں کامیابی ملی،  ٹاپ پہ اندازاَََ 10 فٹ سے زیادہ برف تھی، ٹاپ پہ ایک مقام ایسا بھی تھا کہ جب ہم  چلتے چلتے چھاتی تک برف میں دھنس گئے تھے،ہمارے آدھے بدن برف میں دھنسے تھے مگر پھر بھی ہماری  خوشی قابلِ دیدنی تھی،
بنا بریں میں مکڑا چوٹی سے   کھڑے ہو کر تاحدِنگاہ  سفید برف پوش چوٹیوں کے  حسین مناظر کو لفظوں میں قلمبند کرنے سے قاصِر ہوں۔

جس پہاڑ کو ہم نے 7 گھنٹے لگا کر سر کیا اسی سے واپس اُترتے ہوئے  ہمیں محض 3 گھنٹے لگے،اکلی رات پھر پائے میں  خیمے کے اندر  بسر کی اور چوتھے دِن  صبح واپسی کے لیئے ٹریکنگ شروع کر دی اور  سری سے گزرتے   ہوئے شوگران کے گھنے جنگلوں میں ٹہلتے ٹہلتے عصر تک واپس کیوائی آ پہنچے۔   لگاتار چار دِن نوڈلز،ڈرائی فروٹ،اور بریڈ کھا کھا کر جب   کچھ  روٹی وغیرہ کھانے کا من ہوا تو کیوائی میں واقع ایک ہوٹل میں گئے،ہاتھ دھوتے دھوتے    نظر غیر اِرادی طور پر واش بیسن کے اوپر لگے آیئنے  پر پڑی تو معلوم ہوا کہ ہم وہ رضی ہیں ہی نہیں  جو آج سے  چار روز قبل مکڑا سر کرنے گئے تھے   کیونکہ لگاتار چار  روز سفید برف  سے منعکس ہو کر  ہمارے  چہروں پر پڑنے والی سورج کے  تیز شعاعوں نے ہمارے چہرے  اور آنکھوں کو کچھ اس طرح جلا دیا تھا   کہ اب ہمارے چہرے کی اوپر والی  جِلدہاتھ سے پکڑ کرکھینچنے پر   کچھ اِس  طرح اُتر رہی تھی جیسے پیاز کے اوپر سے جھلی اُترتی ہے۔

Sunday 27 March 2016

گذشتہ رات میں رات کی سیر کرنے یونیورسٹی ہاسٹل سے

گذشتہ رات میں رات کی سیر کرنے یونیورسٹی ہاسٹل سے باہر نکلا تو خلاف مہمول اپنا رخ یونیورسٹی روڈ کی طرف گامذن کیا.رستے میں چلتے چلتے میں نے انسانیت کو روڈ کنارے فٹ پاتھ پہ بے سرو سہارا پایا. زمیں پہ اللہ کے نائب اس اشرفالمخلوقات کو میں نے نہ جانے دن کی کتنی سختیاں , نہ جانے کتنی صہوبتیں جھیلنے کے بھد پتھروں کی اس ذمیں پہ سوتے دیکھا.
چاہتے نہ چاہتے ھوے بھی ان لاچار اور مظلوموں کی تصویر کشی کی اور کل سے اس تصویر کو درجنوں بار دیکھ چکا ھوں۔ جانے کیوں یہ تصویر بار بار میرے ذہن میں آتی ہے . جانے کیوں اس تصویر کے لوگوں کی یہ بے بسی میری آنکھوں میں نقش پذیر ہو چکی ھے. یہ تمام مناظر میرے تصور میں آتے ہیں.میری آنکھیں تو نم ہوتی ہیں مگر کوی بیریر ضرور ہے جو راستے میں حائل ھے.ایک بیریر جو ان تمام مناظر کو دیکھنے کے با وجود بھی مجھے پھوٹ پھوٹ کر رونے پہ مجبور نہیں کر رھا .ان تمام مناظر کو دیکھنے کے با وجود بھی میری آنکھیں اشک بار نھیں ھو رھی .
جیسے جیسے میرے قدم ان بے بس و لاچار انسانوں کی طرف بڑھتے گئے میرے زہن میں کروڑوں خیالات جنم لے رہے تھے.آخر یہ کون ہیں ؟ یہ کہاں سے آئے ھیں ؟ وہ کون سی وجوہات ہیں کہ یے لوگ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں؟ وہ کون سا رائج کافرانہ نظام ھے جو ان غریبوں سے ان کے بنیادی حقوق چھین رہا ھے؟ آیا یے ہم جیسے انسان نھیں ھیں کیا ؟ آیا ان کے دل میں خواھشیں جنم نھی لیتیں ؟ آیا ان کے بچوں کی مہسومیت کھیں اس ظلم کے نظام کی لگائ ھوی آگ میں جل کر خاکستر نہی ھو رھی کیا ؟
یقیننا یہ وہھی غریب طبقہ ھے جو اپنی اور اپنے خاندان کی پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دن بھر مذدوری کرتے ھیں . یقیننا یہ وہ ھی مزدور ہیں جنکا پسینہ ہمارے ملک کے سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقہ کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ھے.یہ وہ ھی غریب ھیں جن کے وسائل پہ چور ڈاکو اور لٹیرے سیاستدانوں نے، بڑے بڑے مذھبی مگرمچھوں نے اور بیروکریسی نے قبظہ کیا ھوا ہے. یے محض 21 خاندان ہیں جنہوں نے گذشتہ 67 سالوں سے اس ملک کو اپنا غلام بنایا ھوا ھے . جو بڑی بے رحمی سے اس ملک کے عوام کا استحصال کر رھے ھیں .
آخر کس نا کردہ جرم کی سذا مل رہی ھے ان کو؟ آیا ان کا یے جرم ھے کہ یے ایک ایسے ملک میں پیدا ہوے جو خالصتا" اسلام کے نام پہ مھرض وجود میں آیا ھے. اسلام !!! ایک ایسا دین جو دنیا سے ظلم کا نظام مٹا کا عدل کا نظام غالب کرنے کے لئے دنیا میں لایا گیا تھا .
آخر کیوں انسانیت کی اتنی تزلیل ہو رہی ہے ؟ آخر کیوں ان کے بنیادی انسانی حقوق تک پورے نہیں ہو رھے.وہ حقوق جو آج سے صدیوں پہلے اسلام نے متحین کئے تھے. آخر وہ کیا بنیادی وجوہات ہیں جنکی وجہ سے ان کے حقوق گزشتہ کئ دہائیوں سے تلف ہو رہے ہیں . یے وہ چند سوالات وخیالات ہیں جنکے جوابات کو کبھی غربت اللہ کی طرف سے آزمائش تو کبھی رائج الوقت فاسق سرمایہ رارانہ نظام سے منسوب کر دیا جاتا ہے.مگر میرے خیال میں جب تک ہم ان سوالوں کے صیح جواب تک رسائ حاصل کر پائیں گے تب تک اس ملک میں رائج ظالمانہ نظام کی آگ خدانخواستہ ہمارے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی .
اور وہ بیرئر بھی شاید یہی چند سوال تھے .
                                                                                                                         بقلم تحسین رضی

کل رات ایک صاحب کی ھونے والی پٹای


کل رات ایک صاحب کی ھونے والی پٹای کی ایک ویڈیو
 پورے سوشل میڈیا پر کسی طوفان کیطرح پھیل گئ۔ اس وڈیو کو لے کر مختلف لوگوں کے مختلف تبصرے سامنے آۓ۔ سلمان تاثیر کے قتل سے لے کر ممتاز قادری کی پھانسی تک جب بھی اہل علم و دانش لوگوں کا ردعمل دیکھا تو وجہ یہی معلوم ہوئ کہ ملک میں مذہبی جنونیت، جہالت اورفرقہ واریت کی آگ لگانے کی کوششیں جا ری ھیں۔ حیرت ہے بڑی جلدی مذہبی جنونیت یاد آنے لگتی ہے آپ کو- آپکی مذہبی جنونیت اس وقت کہاں ہوتی ہے جب خود کش دھماکوں میں ہزاروں لوگ مرتے ہیں ، آپکیمذہبی جنونیت اس وقت کہاں ہوتی ہے جب مسجدوں،مدرسوں، درباروں، امام بارگاہوں، احمدی عبادت گاہوں اور چرچوں پر خود کش حملے ہوتے ہیں، جب بے گناہ لوگوں کا قتل عام ناموس صحابہ، عقیدے اور مذہب کے نام اور بنیاد پر کیا جا رہا ہوتا ہے، کہاں ہوتی ہے آپ کی مذہبی جنونیت جب احمدیوں اور عیسائیوں کے گھر مکینوں سمیت جلائے جا رہے ہوتے ہیں، کہاں ہوتے ہیں آپکے وہ علوم اور تبصرے جب ایک غریب کے بچےغربت وافلاس کی وجہ سے بلک بلک کر مر جاتے ہیں، جب ایک غریب ہاری کی بییٹی اپنی عزت بیچنے پہ مجبور ہو جاتی ہے اور جب ایک مزدور انصاف کے حصول کے لۓ عدالت کے دروازے کھٹکٹا کھٹکٹا کر مر جاتا ہے۔ تب تونہ کسی کو مذہبی جنویت نظر آئی نہ جہالت اور نہ آگ۔
اسلامی تعلیمات کا چہرہ مسخ کرنے والو! اسلام تو امن و آتشی کا دین ہے، جو دین مہاشرے کے کلی مسائل کا جامع حل پیش کرتا ہے آپ نے اسکی تعلیمات کو محض نماز و روزہ اور حوروں کے قصوں تک محدود کر دیا ہے ۔ سیاست کو دین سے الگ کر کے محض دین کے ایک پہلو کی تعلیمات دینے والے اسلام کے ٹھیکیدارو خداراہ مظلوم طبقات کا تماشہ مت دیکھو، ظلم کی حدیں مت پھلانگو۔
تبلیغ اور دعوت کے نام پر اس ملک کے عوام کو نہ بہکاو اور بہلاو۔ آپکے اسی کردار نے عقل و فکر کے تقاضوں کو دیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر کچھ اس طرح کھوکھلا کر دیا ھے کہ آپکے اس نظریہ اسلام کے پیروکاروں اور نام لیواؤں سے اسلام ہی کیا ‘ اب تو پوری دنیا ہی پناہ مانگ رھی ھے۔ اور حالات اگر ایسے ہی رہے تو یہی مفاد پرست مذھبی اشرافیہ ھمارے عقل و فکر کو مسخ کرتا رہے گا اور اس دنیا کو جہنم بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
اس لۓ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی بھاگ ڈور اور اس کی تعبیر و تشریح مستند اور مستحکم صاحبان فہم و فراست کے ھاتھوں میں رہے جو کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سوسائٹی کو درپیش مسائل کا حل اور اس سرمایہ دارانہ ظالمانہ نظام کے خلاف سیاسی عملی جدوجہد کرنے کی صلاحیت 
اسلامی تعلیمات کا چہرہ مسخ کرنے والو! اسلام تو امن و آتشی کا دین ہے، جو دین مہاشرے کے کلی مسائل کا جامع حل پیش کرتا ہے آپ نے اسکی تعلیمات کو محض نماز و روزہ اور حوروں کے قصوں تک محدود کر دیا ہے ۔ سیاست کو دین سے الگ کر کے محض دین کے ایک پہلو کی تعلیمات دینے والے اسلام کے ٹھیکیدارو خداراہ مظلوم طبقات کا تماشہ مت دیکھو، ظلم کی حدیں مت پھلانگو۔تبلیغ اور دعوت کے نام پر اس ملک کے عوام کو نہ بہکاو اور بہلاو۔ آپکے اسی کردار نے عقل و فکر کے تقاضوں کو دیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر کچھ اس طرح کھوکھلا کر دیا ھے کہ آپکے اس نظریہ اسلام کے پیروکاروں اور نام لیواؤں سے اسلام ہی کیا ‘ اب تو پوری دنیا ہی پناہ مانگ رھی ھے۔ اور حالات اگر ایسے ہی رہے تو یہی مفاد پرست مذھبی اشرافیہ ھمارے عقل و فکر کو مسخ کرتا رہے گا اور اس دنیا کو جہنم بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔اس لۓ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی بھاگ ڈور اور اس کی تعبیر و تشریح مستند اور مستحکم صاحبان فہم و فراست کے ھاتھوں میں رہے جو کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سوسائٹی کو درپیش مسائل کا حل اور اس سرمایہ دارانہ ظالمانہ نظام کے خلاف سیاسی عملی جدوجہد کرنے کی صلاحیت اسلامی تعلیمات کا چہرہ مسخ کرنے والو! اسلام تو امن و آتشی کا دین ہے، جو دین مہاشرے کے کلی مسائل کا جامع حل پیش کرتا ہے آپ نے اسکی تعلیمات کو محض نماز و روزہ اور حوروں کے قصوں تک محدود کر دیا ہے ۔ سیاست کو دین سے الگ کر کے محض دین کے ایک پہلو کی تعلیمات دینے والے اسلام کے ٹھیکیدارو خداراہ مظلوم طبقات کا تماشہ مت دیکھو، ظلم کی حدیں مت پھلانگو۔تبلیغ اور دعوت کے نام پر اس ملک کے عوام کو نہ بہکاو اور بہلاو۔ آپکے اسی کردار نے عقل و فکر کے تقاضوں کو دیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر کچھ اس طرح کھوکھلا کر دیا ھے کہ آپکے اس نظریہ اسلام کے پیروکاروں اور نام لیواؤں سے اسلام ہی کیا ‘ اب تو پوری دنیا ہی پناہ مانگ رھی ھے۔ اور حالات اگر ایسے ہی رہے تو یہی مفاد پرست مذھبی اشرافیہ ھمارے عقل و فکر کو مسخ کرتا رہے گا اور اس دنیا کو جہنم بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔اس لۓ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی بھاگ ڈور اور اس کی تعبیر و تشریح مستند اور مستحکم صاحبان فہم و فراست کے ھاتھوں میں رہے جو کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سوسائٹی کو درپیش مسائل کا حل اور اس سرمایہ دارانہ ظالمانہ نظام کے خلاف سیاسی عملی جدوجہد کرنے کی صلاحیت اسلامی تعلیمات کا چہرہ مسخ کرنے والو! اسلام تو امن و آتشی کا دین ہے، جو دین مہاشرے کے کلی مسائل کا جامع حل پیش کرتا ہے آپ نے اسکی تعلیمات کو محض نماز و روزہ اور حوروں کے قصوں تک محدود کر دیا ہے ۔ سیاست کو دین سے الگ کر کے محض دین کے ایک پہلو کی تعلیمات دینے والے اسلام کے ٹھیکیدارو خداراہ مظلوم طبقات کا تماشہ مت دیکھو، ظلم کی حدیں مت پھلانگو۔تبلیغ اور دعوت کے نام پر اس ملک کے عوام کو نہ بہکاو اور بہلاو۔ آپکے اسی کردار نے عقل و فکر کے تقاضوں کو دیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر کچھ اس طرح کھوکھلا کر دیا ھے کہ آپکے اس نظریہ اسلام کے پیروکاروں اور نام لیواؤں سے اسلام ہی کیا ‘ اب تو پوری دنیا ہی پناہ مانگ رھی ھے۔ اور حالات اگر ایسے ہی رہے تو یہی مفاد پرست مذھبی اشرافیہ ھمارے عقل و فکر کو مسخ کرتا رہے گا اور اس دنیا کو جہنم بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔اس لۓ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی بھاگ ڈور اور اس کی تعبیر و تشریح مستند اور مستحکم صاحبان فہم و فراست کے ھاتھوں میں رہے جو کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سوسائٹی کو درپیش مسائل کا حل اور اس سرمایہ دارانہ ظالمانہ نظام کے خلاف سیاسی عملی جدوجہد کرنے کی صلاحیت اسلامی تعلیمات کا چہرہ مسخ کرنے والو! اسلام تو امن و آتشی کا دین ہے، جو دین مہاشرے کے کلی مسائل کا جامع حل پیش کرتا ہے آپ نے اسکی تعلیمات کو محض نماز و روزہ اور حوروں کے قصوں تک محدود کر دیا ہے ۔ سیاست کو دین سے الگ کر کے محض دین کے ایک پہلو کی تعلیمات دینے والے اسلام کے ٹھیکیدارو خداراہ مظلوم طبقات کا تماشہ مت دیکھو، ظلم کی حدیں مت پھلانگو۔تبلیغ اور دعوت کے نام پر اس ملک کے عوام کو نہ بہکاو اور بہلاو۔ آپکے اسی کردار نے عقل و فکر کے تقاضوں کو دیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر کچھ اس طرح کھوکھلا کر دیا ھے کہ آپکے اس نظریہ اسلام کے پیروکاروں اور نام لیواؤں سے اسلام ہی کیا ‘ اب تو پوری دنیا ہی پناہ مانگ رھی ھے۔ اور حالات اگر ایسے ہی رہے تو یہی مفاد پرست مذھبی اشرافیہ ھمارے عقل و فکر کو مسخ کرتا رہے گا اور اس دنیا کو جہنم بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔اس لۓ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی بھاگ ڈور اور اس کی تعبیر و تشریح مستند اور مستحکم صاحبان فہم و فراست کے ھاتھوں میں رہے جو کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سوسائٹی کو درپیش مسائل کا حل اور اس سرمایہ دارانہ ظالمانہ نظام کے خلاف سیاسی عملی جدوجہد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ 
                                                                                                                                     بقلم تحسین رضی

Thursday 24 March 2016

نیو یارک ٹآیْمز کی کہانیاں اور صداقت

نیو یارک ٹآیْمز کی کہانیاں اور صداقت!
صدام حسین نے تیل کے عوض سونا مانگ کر امریکی معیشت کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی تو نیو یارک ٹآیْمز نے عراق کے خلاف جوہری ہتھیار بنانے کی ۱ سٹوری لکھ دی۔ جس پر کسی نے بھی نیو یارک ٹآیْمزسے وضاحت مانگنے کی بجاےْ عراق کو ملزم کی بجاےْ مجرم سمجھنا شروع کردیا۔ امریکہ نے عراق پر چڑھائ کر دی۔ عراق کو تباہ کر کے جب کوئ ثبوت نا ملا تو دنیا کو احساس ہوا کہ نیو یارک ٹآیْمز کی ۱ جھوٹی سٹوری کے پیچھے عراق کو برباد کر دیا گیا پے۔ نیو یارک ٹآیْمزنے اس سٹوری پہ محض ۱ پیراگراف لکھ کے معافی مانگ لی اور دنیا نے لاکھوں لوگوں کے قتل کا باعث بننے والے نیو یارک ٹآیْمزکو معاف کر دیا۔
BCCI بینک کے تیزی سے بڑھتے ہوے زرے مبادلہ کو دیکھ کر امریکی منڈیوں میں تشویش کی لہر دوڈ گئ۔ اپنے کمپیٹیٹر کو راستے سے یٹانے کا ٹاسک ۱ بار پھر نیو یارک ٹآیْمز کو دیا گیا۔ BCCI کے ۱ ملازم کو چند پیسے دے کے منگھڑت بیان لیا گیا اور نیو یارک ٹآیْمز نے ۱ بار پھر جھوٹی سٹوری شایعُ کر دی۔ اس بار بھی کسی نے نیو یارک ٹآیْمزکو اپنے الزامات ثابت کرنے کا نہیں کہا۔ سب نے مل کر تفتیش کے نام پر معاشی پابندیاں اور اس گروپ میں بینکنگ شعبہ کی ساکھ کو ایسا متاثر کیا کہ دوبارہ خطے میں کوئ بھی اس شعبہ میں امریکی منڈیوں کہ مدِمقابل نہ کھڑا ہو سکے۔ بعد میں یہ سٹوری بھی جھوٹی ثابت ہو گئ اور نیو یارک ٹآیْمز نے معافی بھی مانگ لی مگر اس جھوٹے سکینڈل کے زخم سے ابھی تک اس خطے کے بینک عالمی منڈیوں کے سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کر کے پہلے جیسیے حالات پیدہ نہیں کر سکے۔
پھر یوں ہوا کہ پاکستان میں ۱ کمپنی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں سر اٹھانا شروع کیا۔ ۴ سال میں اس کمپنی نے دنیا بھر کی منڈیوں میں اپنا لوہا منوایا اوربےتحاشہ زرِمبادلہ کماتے ہوے دنیا بھرکی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مارکیٹ میں نہ صرف اپنا نام منوایا بلکہ کمپیٹیٹرز کے لیے خطرہ کی گھنٹی بجا دی۔ ساتھ ہی ساتھ اس کمپنی نے اپنا میڈیا گروپ بھی کھول لیا جس کا مقصد ملک میں موجود اندرونی غداروں کو بینقاب کرنا اور ملک کا واحد پرو نیشنل چینل بنانا بھی تھا۔ اس ادارے نے خطے کے ہزاروں نوجوانوں کو روزگار بھی مہیا کیا ہوا تھا۔ ہمیشہ کی طرح یہ سر اٹھاتی کمپنی وقت کے خداوْں کو ناگوار گزر رہی تھی اور شک تھا کہ کہیں کویُ مدِمقابل نہ کھڑا ہو جاےُ۔ اس کمپنی کے خلاف ۱ مقدمہ کیا گیا جس میں کمپنی نے اپنی سچایُ ثابت کر دی اور سب کام معمول کے مطابق چلتے رہے۔ پھر اس کمپنی کا پتہ کاٹنے کی زمہ داری نیو یارک ٹآیْمز کو دی گیُ۔ پرانے مقدمے کو بنیاد بنا کر نیو یارک ٹآیْمز نے ۱ سٹوری لکھ دی۔ اس بار پھر کسی نے نیو یارک ٹآیْمز کو اپنی رپورٹ ثابت کرنے کا نہیں کہا بلکہ مقمامی میڈیا کے ذریعہ (جو پیلے ہی اس کمپنی کو اپنا کمپیٹیٹر سمجھ کے بوکھلاہٹ کا شکار ہے) اس کمپنی کے خلاف محاظ کھڑا کر دیا۔ کمپنی کی ساکھ تو تفتیش مکلمل ہونے سے پہلے ہی اتنی متاثر ہو چکی ہے کہ اب اگر یہ بے گناہ ثابت ہو بھی جاےُ تو پھر بھی اس شعبے میں ساکھ بحال کرتے کرتے اتنا وقت لگ جاےُ گا کہ مقابلے کی تمام کمپنیز کوسوں دور ہو جایِں گی۔
نیو یارک ٹآیْمز تو اس بر بھی معافی مانگ لے گی مکر اس سٹوری سے متاثر ہونے والا ملک انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں سالوں پیچھے رہ جاےَ گا۔ اس کمپنی کی ساکھ ہی متاثر نہیں ہوگی بلکہ پورے خطہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں اس ملک کی ہر کمپنی سے اعتبار اٹھ جاے گا۔ جو ملک اس وقت سب سے زیادہ زرمبادلہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ سے کما رہا ہے وہ ملک ۱ جھوٹے پروپیگنڈہ کی نظر ہو کے اس منڈی سے ہی باہر ہو جاےُ گا۔
عرض صرف اتنی ہے کہ بہلے تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ الزام کون لگا رہا ہے اور اس کا اپنا کردار کیسا ہے۔ پھر اگر مان بھی لیا جاےُ کہ جو بندہ ہمیشہ سے ہماری معیشت کہ مخالف لکھتا آیا ہے وہ اس بار سچا ہے تو پھر بھی ملزم کو فورآ مجرم سمجھ کر اپنے ہی ملک کی اتنی بڑی کمپنی کے سڑرکچر اور وطن کی ساکھ کو تباہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کمپنی جھوٹی بھی ہوگی اور ٹیکس چور بھی پر میاں دوسروں کے لگاےُ الزام پر اپنے پاوُں پر کلحاڑی مارنے سے پہلے اپنوں کا موُقف تو پوچھ لو۔ بحیثیت قوم ہمیں میڈیا ٹرایُل کی عادت کوترک کر کہ اصلیت کو دونوں اطراف کا موقف جان کر انصاف کے پلیٹ فارم پر فیصلہ کرنے والے اداروں پہ یقین رکھنا چاہیے۔
آخر کب تک کسی کے بھی ہمارے گھر میں چنگاری پھینکنے سے بنا سوچے سمجھے ہم خد ہی ھوا دے کے سارا آنگن جلاتے رہیں گے۔
تحقیقات مکمل ہو لینے دیں اگر اس بار نیو یارک ٹآیْمزسچا ہوا تو پھر فیصلہ کر لیں گے کہ اسے بنیاد بنا ک سزا کمپنی کو دینی ہے یا میڈیا کے ذریعے قوم کی ساکھ کو؟

Junaid Jamshed Clothes (جنید جمشید کے کرتے)

جنید جمشید کے کرتے !
یہ 2012 کی بات ہے جب میں سات سال بعد پاکستان گیا وہ بھی ایک دوست کی شادی پر. لیکن سیاپا یہ پڑ گیا کہ میرے پاس پاکستانی لباس (شلوار قمیض) نہیں تھا !اسلام آباد ائیرپورٹ اترا اور جانا بھی گاؤں تھا سوچا کچھ دو تین جوڑے پاکستانی شلوار قمیض ہی لے لوں ، دوسرے دن ابیٹ آباد میں دوست کی مہندی بھی تھی . خیر میں نے جنید جمشید کے کرتوں کا سنا ہوا تھا. کزن کو کہا چلو JJ کی دکان پر چلتے ہیں اور پھر وہاں سے کچھ لے کر گاؤں کی طرف کوچ کریں گے، آگے سے کزن نے کہا آج رہنے دو کل ابیٹ آباد جاتے وقت خرید لیں گے ۔ہماری فلائٹ اتری صبح کوئی چھ بجے تھی ! کافی انتظار کرنا پڑا . کزن نے فراخ دلی دکھاتے ہوۓ اپنے کچھ کپڑے دینے کی حامی بھر لی !
خیر دوسرے دن مہندی کے لئے ایک کرتا خریدا اس کی قیمت یاد نہیں، دس کا تھا یا بارہ کا میں نے صرف ایک دن مہندی پر پہننا تھا ! چونکہ آج کل فیس بک پر میں دیکھ رہا ہوں کچھ نام نہاد یہ که رہے ہیں کہ جنید مولوی بنا ہی اسلئے ہے کہ یہ اپنا بزنس چمکا لے .کرتوں پر اتنا منافع ، آٹھ سو کا کرتا آٹھ ہزار کا بیچ رہا ہے وغیرہ وغیرہ ! خیر جنید کے مذہبی ہونے یا نہ ہونے اور اس کے کسی نقطہ نظر مجھے کوئی سروکار نہیں ، چاہے آپ اس کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیں یا اس کو اسلام کا عظیم مبلغ مانیں مجھےاس سے بھی کچھ کوئی لینا دینا نہیں ہے ،
جیسا کہ میرا پیشه گارمنٹس اینڈ فیشن کے ساتھ منسلک ہے اسلئے گارمنٹس مینوفیکچرنگ کے بارے میں تھوڑا بہت میں بھی جانتا ہوں. پاکستان ، انڈیا ، بنگلہ دیش ،چائنا کی گارمنٹس کی فیکٹریز کے ساتھ کافی عرصہ کام کر رہا ہوں. جنید جمشید کے کرتوں کو تھوڑی دیر ایک سائیڈ پر رکھیں یہ کوئی اتنا انٹرنیشنل برانڈ نہیں ہے اب بات کرتے ہیں یورپ ،امریکا نامی گرامی ریٹیلرز کی جیسا کہ امریکن ایگل ، اے اینڈ ایف، نیکسٹ وغیرہ وغیرہ ان کے گارمنٹس پاکستان انڈیا، بنگلہ دیش اور چائنا میں ہی مینوفیکچر ہوتے ہیں اور اچھی کوالٹی کے جینس کی زیادہ سے زیادہ قیمت آٹھ سے دس ڈالر ہے لیکن جب یہ ریٹیل میں جاتی ہے دو سو پرسینٹ مارک اپ کے ساتھ فروخت کی جاتی ہے. آٹھ دس ڈالر کی جینس ریٹیل میں سو ڈالر سے پانچ سو ڈالر تک فروخت ہو رہی ہے. اس منافع سے برانڈ نے ملازمین کی سیلری ،شاپس کا کرایہ اور دوسرے اور ہیڈ جس کو فکس کاسٹ کہتے وہ بھی پورے کرنے ہوتے ہیں. بے شک برانڈڈ پروڈکٹ ایک منافع بخش کاروبارہے ، خیر جو کوئی بھی کاروبار کرتا ہے وہ منافع کے لئے ہی کرتا ہے. ان برانڈز کے سب خرچے نکال کر جو منافع ہوتا ہے وہ کوئی چالیس پرسینٹ سے لے کر اسی پرسینٹ تک ہو سکتا ہے جس کا جتنا بڑا نام اس کا اتنا زیادہ مارجن !
اب اتے جنید کے کرتوں کی طرف اس کے بھی اسی طرح فکس کاسٹ ہیں اس نے بھی منافع کے لئے کاروبار شروع کیا کوئی چونکہ یہ مولوی ہے اسلئے جملے کسے جاتے ہیں کہ آٹھ سو کا کرتا آٹھ ہزار میں بیچ رہا ، حالانکہ وہ زبردستی کسی کے ساتھ نہیں کر رہا لینے والے کی اپنی مرضی پر منحصر ہے چاہے تو وہ لے چاہے نہ لے کوئی زور زبردستی نہیں ہے لیکن اگر یہ مولوی نہ ہوتا اور سپر اسٹار سنگر ہوتا بے شک آٹھ سو کا کرتا اسی ہزار کا بھی بیچ دیتا تو کسی کا منہ تک نہ کھلتا ، پاکستان میں اور بھی کرتوں کی برانڈز ہیں ان کی بھی مینوفیکچرنگ کاسٹ اتنی ہی ہے جتنی جنید کے کرتوں کی ہے ،زیادہ سے زیادہ فرق مختلف کوالٹی کی بنا پر ایک یا دو ڈالر کا ہو سکتا ہے لیکن ان کے آٹھ سو کے کرتے سولہ سے بیس سے پچاس ہزار تک بھی فروخت ہو رہے تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ! جس نے آٹھ سو کا خریدنا ہو وہ آٹھ سو کا خرید لے اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ نہ کہ دوسروں کے پیٹ پر لات مارو .ان نام نہاد انسانیت کے پرچاروں کی منافقانہ روش کی وجہ سے لوگ تقسیم در تقسیم ہوتے جا رہے ہیں لیکن ان فیس بکی دو کوڑی کے فلاسفروں کو انسانوں سے زیادہ بندروں سے پیار ہے اسلئے یہ انسانیت کے بارے میں کبھی ایک سا پیمانہ بنا کر نہیں سوچ سکتے انہوں نے مولوی کے لئے الگ سنگرز کے لئے الگ ماڈلز کے لئے الگ اور سیاستدانوں کے لئے الگ پیمانہ بنا لیا ہے اور حد یہ کہ اپنے لئے ایک الگ یعنی مرض ایک ہے لیکن دوائی مختلف صرف کوالٹی کا فرق ہے ۔کوالٹی سے یاد آیا کہ ان انسانیت کے علمبرداروں نے تمام انسانوں کو ایک ہی کوالٹی کی دوائی تو پہنچائی نہیں آج تک کپڑے پہنچانے کی ساری ذمہ داری جنید جمشید پر کیوں ڈال رہے ہیں ۔ ؟
بقلم مولوی روکڑا

این جی او کے پروگرام

این جی او کے پروگراما ا
میں نے انکل گوگل پر سرچ کیا کہ پاکستان میں کتنی انٹرنیشنل این جی او کام کر رہی ہے ، خیر سرچ کرنے کی دیر تھی کہ ایک لمبی لسٹ کا رجسٹر اوپن ہو گیا ،، کچھ کی ویب سائٹ کنگالی تو ایسا محسوس ہوا جیسے این جی او نے پاکستان کو جنت بنا دیا ہو ، بڑے بڑے سلوگن ، تصویروں کا انبار ، انٹرنیشنل کانفرنس جس میں غریب عورتیں ایکا دوکا نظر آ رہی تھی ! خیر ایکا دوکا غریب عورتیں بھی وہ جن کو آلہ کار بنا کر یا تو فنڈنگ لی جاتی ہے یا پھر مخصوص ایجنڈے کا فروغ دیا جاتا ہے ! تقریبا ہر دوسری این جی او میں کچھ پروگرام بہت مشترکہ تھے ، جیسے کہ " صنفی برابری کے پروگرام " سوال یہ ہے کہ یہ صنفی برابری ہے کیا ؟ مرد عورت کے برابر ہے یا عورت مرد کے برابر ؟ مساوات کے تعین میں کون کون سے پہلو آ جاتے ہیں ؟ پاکستان میں کام کرنے والی خاص کر عورتوں کے حقوق پر کام کرنے والی این جی او کا کام "ملا سے کھلی جنگ" جیسے محاذ سے آگے کچھ نظر نہیں آیا ، ان این جی او کا سوشل ورک بلکل نواز شریف کی بجلی پروگراموں جیسا ہے ،جو صرف اور صرف اشتہاروں میں ہی نظر آتا ہے !
این جی او کے پروگرام سے مستفید ہونے والے حضرات ضرور کمنٹس کریں !
بقلم مولوی روکڑا

آزاد بڑھاپا

معمول کے مطابق میں ہمیشہ کی طرح آفس گیارہ بجے اتا ہوں . یہی میری ٹائمنگ ہے ، روزنہ حسب معمول بلڈنگ سیکورٹی گارڈ گلاس کا مرکزی دروازہ ( گیٹ ) میرے دھکیلنے سے پہلے ہی کھول دیتا ہے . اور پرجوش انداز میں گڈ مارننگ که کر استقبال کرتا ہے. لیکن آج جب میں آفس پہنچا تو سیکورٹی پر تعینات ایک ساٹھ سال کی خاتون تھی ، مرکزی دروازہ میں نے خود ہی دھکیلا اور لفٹ کے بٹن بھی دبایا ، میں نے خود ہی گڈ مارننگ کہا لیکن ایک دھیمی سے آواز میں اس نے جواب دیا ! خیر اس معاشرے میں شادی نہ کرنے اور بچے نہ پیدا کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے ، جوانی میں تو جو کچھ کماتے ہیں دنیا کی چمک دمک میں خرچ کر دیتے ہیں ، لیکن جب آخری عمر پہنچتے تو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوتا اور اس دنیا میں پیٹ کے جہنم کو بھرنے کے لئے محنت تو کرنی پڑہتی ہے ! یا پھر اولڈ ہاؤس رہ جاتا ہے ،
ہمارے معاشرے میں جب والدین اس عمر میں پہنچتے ہیں تو اولاد تو خذمت کرتی ہی ہے ساتھ ساتھ اولاد کی اولاد بھی خذمت پر معمور ہو جاتی ہے ! ، یہی ہمارا خاندانی نظام ہے ، اگر اس خاندانی نظام کو توڑنا ہی "ملا سے جنگ کے معنی ہے" تو میں امید کرتا جو عورتیں بل بورڈ اٹھائے نعرے لگا رہی ان کے لئے یہی دعا ہے کہ ان کو بھی اسی طرح آزاد بڑھاپا نصیب ہو جیسے میری بلڈنگ کی خاتون سیکورٹی گارڈ کو ہو ا ہے ! اور یقین کریں ! میری بلڈنگ کے مرد سیکورٹی گارڈ کی تنخواہ اس بوڑھی خاتون سیکورٹی گارڈ سے زیادہ ہو گی اور دونوں کی عمریں لگ بھگ ایک جتنی ہی ہیں ! سرمایہ دارانہ نظام کا مقصد عورتوں کو حقوق کا لالی پاپ دے کر سستی اور معیاری لیبر کا حصول ہے ! اور اسی مقاصد کے لئے عورتوںکو سڑکوں پر لایا جاتا ہے بلکل ویسے جیسے امریکن عورتوں کو سگریٹ پینے کے حقوق دینے کے بعد جس طرح اجناس کی طرح اچھی پیکیجنگ میں ان کی تشہیر کی گئی وہ سب کے سامنے ہے !
بقلم مولوی روکڑا