Friday 15 April 2016

کہتے ہیں کہ اگر کسی ٹریکر کو ایک دفعہ کوہ ہمالیہ جانے کی لَت َلگ جائے



کہتے ہیں کہ  اگر کسی ٹریکر کو ایک دفعہ کوہ  ہمالیہ جانے کی لَت َلگ جائے تو وہ اپنی  تمام عمر ٹریکنگ نہیں چھوڑ  سکتا   ۔  کچھ ایسا ہی ہمارے ساتھ ہوا۔  دسمبر 2014  جب  موسٰی کا مصلحہ کے ٹاپ سے  اس دیو ہیکل  پہاڑ کو دیکھا تو دِل ہی دِل میں اس کو سر کرنے کا خیال دِل میں   مچلنے لگا۔اور اس خیال نے  پھر اُس وقت تک  چین سے بیٹھنے نہ دیا جب تک ہم نے اسکو سر نہ کر لیا۔

ارادہ یہ تھا کہ ہم نے وِنٹر سیزن 2015 میں سب سے  پہلے مکڑا چوٹی کو سَر کرنا ہے۔اور  اس   مقصد کے حصول کے لئے مہم جوئی  موسٰی کا مصلحہ سے واپسی کے اگلے دِن ہی شروع ہو گئی۔ چاہتے نہ چاہتے ہوئے  انجینئرنگ کے مِڈ ٹرم ایگزام دیئے  اور یو-ای-ٹی سےراہِ فرار اختیار کر کیمپنگ کا ضروری سامان پیک کیا اور ضلع مانسہرہ کےگاوں کیوائی آ پہنچے۔
شام کے وقت  کیوائی سے ٹریکنگ سٹارٹ کی تو  لگ بھگ  دو سے ڈھائی گھنٹے بعد ہم تین دوست مغرب کے وقت شوگراں پہنچ گئے۔ آف سیزن کی وجہ سے شوگران کے زیادہ تر ہوٹل بند  تھے،  رات  کھلے آسماں تلے   خیموں میں گزارنے کے بعد  صبح چند مقامی ہوٹل مالکان سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے پوچھا صاحب آپ اتنی شدید سردی میں یہاں کیا کرنے آئے ہیں تو  میرے دوست ناصرکی طرف سے جواب ملا کہ ہم  مکڑا سر کرنے آئے ہیں۔ جتنا نان کوآرپوریٹیو بیحیویر  ہمیں شوگران کے ان ہوٹل مالکان  کی طرف سےمِلا اُتنا شاید ہی کسی سے مِلا ہو۔ کسی نے کہا اوپر  اتنی سردی ہے کہ جم جاو گے، کسی نے کہا کہ آج کل گلیشئر گِر رہے ہیں گلیشئرز کے نیچے دب جاو گے، کسی نے کہا وہاں آرمی کے کمانڈوز گیئے تھے اور  اُنکی ڈیڈ باڈیذ  ابھی تک نہی مِل سکیں، کسی نے کہا کہ اگر زندگی عزیز ہے تو اوپر مت جاو۔  موسم کی شدت اور   انکی باتیں سن کر ہمارےذہن میں کھٹکا ضرور پیدا ہوا مگر شوقِ آوارگی تھی کہ  چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی تھی۔
علی اَلصبح ٹریکنگ شروع کی تو تقریباَ 9ََ   گھنٹے کی سنو  ٹریکنگ کے بعد پائے میڈوز  پہنچ گئے۔ پائے میں اُس وقت 3 سے 4 فٹ تک برف تھی،رات سونے کے لئے کیمپ لگایا،  آگ جلا کے  برف پگھلائی ، آدھا  پانی پینے کے لئے سٹور کر لیا اور آدھے پانی میں ڈِنر کے لئے نوڈلز   بنانے لگے، دِن بھر کی تھکاوٹ کے بعد   رات کو  اپنے ہاتھ سے  نوڈلز   بنا کر کھانے میں جو لذت آئی وہ  لذت  نہ کبھی   لا ہور کے لکشمی چوک کی بٹ کراہی دے سکی نہ ہی کبھی  پشاور کی نمک منڈی کا  چرسی تِکہ ۔
رات کو سونے کے لئے جب ہم  تینوں نے اپنے اپنے  سلیپنگ بیگ کھولے تو معلوم ہوا   کہ ہمارا یک دوست  تواپنا  سلیپنگ بیگ شوگران میں ہی کہیں بھول آیا ہے، اب ہمارے لئے صورتِ حال  ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی تھی، کیونکہ ہم بندے تین تھے  اور ہمارے پاس  سونے کے لیے سلیپنگ بیگ دو تھے۔بَحرحال جیسے کیسے ہی سہی، رات گزر ی خدا خدا کر کے ۔ رات کے منفی درجہ حرارت میں کیمپنگ کرنے کے بعد  جو مناظر ہمیں  صبح دیکھنے کو  ملے انہوں نے رات کی ساری صہوبتیں بھلا دیں،شاید وہ میری زندگی کی سب سے خوبصورت صبح تھی    جب    وادی کشمیر،ناران ، سرن اور کوہستان  کی تمام  پہاڑیں برف کی سفید چادر اوڑھے گہری نیند سو رہی تھیں اور سورج کی  پہلی کرنیں  برف سے ڈھکے مکڑا  پہاڑ کی کو کچھ اس طرح  چمکا رہی تھیں   کہ جیسے  پورے کا پورا  پہاڑ  سونے کا بن گیا ہو۔
ہماری اگلی منزل مکڑا کی چوٹی تھی، شروعات میں تو ٹریکنگ آسان تھی مگر سورج کی حرارت تیز ہونے کے ساتھ ساتھ   برف  نرم ہوتی گئی اور پہاڑکی ڈھلوان بڑھتی گئی۔ نرم برف  میں ٹریکنگ کرنا  تو قدرے مشکل ہوتا ہے مگر اِرد  گِرد کے دِلکش مناظر نے نہ  توہمیں تھکاوٹ محسوس ہونے دی نہ دِقت۔ 7 گھنٹے کی لگاتار مہم جوئی کے بعد بالاخر مکڑا کو سر کرنے میں کامیابی ملی،  ٹاپ پہ اندازاَََ 10 فٹ سے زیادہ برف تھی، ٹاپ پہ ایک مقام ایسا بھی تھا کہ جب ہم  چلتے چلتے چھاتی تک برف میں دھنس گئے تھے،ہمارے آدھے بدن برف میں دھنسے تھے مگر پھر بھی ہماری  خوشی قابلِ دیدنی تھی،
بنا بریں میں مکڑا چوٹی سے   کھڑے ہو کر تاحدِنگاہ  سفید برف پوش چوٹیوں کے  حسین مناظر کو لفظوں میں قلمبند کرنے سے قاصِر ہوں۔

جس پہاڑ کو ہم نے 7 گھنٹے لگا کر سر کیا اسی سے واپس اُترتے ہوئے  ہمیں محض 3 گھنٹے لگے،اکلی رات پھر پائے میں  خیمے کے اندر  بسر کی اور چوتھے دِن  صبح واپسی کے لیئے ٹریکنگ شروع کر دی اور  سری سے گزرتے   ہوئے شوگران کے گھنے جنگلوں میں ٹہلتے ٹہلتے عصر تک واپس کیوائی آ پہنچے۔   لگاتار چار دِن نوڈلز،ڈرائی فروٹ،اور بریڈ کھا کھا کر جب   کچھ  روٹی وغیرہ کھانے کا من ہوا تو کیوائی میں واقع ایک ہوٹل میں گئے،ہاتھ دھوتے دھوتے    نظر غیر اِرادی طور پر واش بیسن کے اوپر لگے آیئنے  پر پڑی تو معلوم ہوا کہ ہم وہ رضی ہیں ہی نہیں  جو آج سے  چار روز قبل مکڑا سر کرنے گئے تھے   کیونکہ لگاتار چار  روز سفید برف  سے منعکس ہو کر  ہمارے  چہروں پر پڑنے والی سورج کے  تیز شعاعوں نے ہمارے چہرے  اور آنکھوں کو کچھ اس طرح جلا دیا تھا   کہ اب ہمارے چہرے کی اوپر والی  جِلدہاتھ سے پکڑ کرکھینچنے پر   کچھ اِس  طرح اُتر رہی تھی جیسے پیاز کے اوپر سے جھلی اُترتی ہے۔