Sunday 27 March 2016

گذشتہ رات میں رات کی سیر کرنے یونیورسٹی ہاسٹل سے

گذشتہ رات میں رات کی سیر کرنے یونیورسٹی ہاسٹل سے باہر نکلا تو خلاف مہمول اپنا رخ یونیورسٹی روڈ کی طرف گامذن کیا.رستے میں چلتے چلتے میں نے انسانیت کو روڈ کنارے فٹ پاتھ پہ بے سرو سہارا پایا. زمیں پہ اللہ کے نائب اس اشرفالمخلوقات کو میں نے نہ جانے دن کی کتنی سختیاں , نہ جانے کتنی صہوبتیں جھیلنے کے بھد پتھروں کی اس ذمیں پہ سوتے دیکھا.
چاہتے نہ چاہتے ھوے بھی ان لاچار اور مظلوموں کی تصویر کشی کی اور کل سے اس تصویر کو درجنوں بار دیکھ چکا ھوں۔ جانے کیوں یہ تصویر بار بار میرے ذہن میں آتی ہے . جانے کیوں اس تصویر کے لوگوں کی یہ بے بسی میری آنکھوں میں نقش پذیر ہو چکی ھے. یہ تمام مناظر میرے تصور میں آتے ہیں.میری آنکھیں تو نم ہوتی ہیں مگر کوی بیریر ضرور ہے جو راستے میں حائل ھے.ایک بیریر جو ان تمام مناظر کو دیکھنے کے با وجود بھی مجھے پھوٹ پھوٹ کر رونے پہ مجبور نہیں کر رھا .ان تمام مناظر کو دیکھنے کے با وجود بھی میری آنکھیں اشک بار نھیں ھو رھی .
جیسے جیسے میرے قدم ان بے بس و لاچار انسانوں کی طرف بڑھتے گئے میرے زہن میں کروڑوں خیالات جنم لے رہے تھے.آخر یہ کون ہیں ؟ یہ کہاں سے آئے ھیں ؟ وہ کون سی وجوہات ہیں کہ یے لوگ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں؟ وہ کون سا رائج کافرانہ نظام ھے جو ان غریبوں سے ان کے بنیادی حقوق چھین رہا ھے؟ آیا یے ہم جیسے انسان نھیں ھیں کیا ؟ آیا ان کے دل میں خواھشیں جنم نھی لیتیں ؟ آیا ان کے بچوں کی مہسومیت کھیں اس ظلم کے نظام کی لگائ ھوی آگ میں جل کر خاکستر نہی ھو رھی کیا ؟
یقیننا یہ وہھی غریب طبقہ ھے جو اپنی اور اپنے خاندان کی پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دن بھر مذدوری کرتے ھیں . یقیننا یہ وہ ھی مزدور ہیں جنکا پسینہ ہمارے ملک کے سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقہ کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ھے.یہ وہ ھی غریب ھیں جن کے وسائل پہ چور ڈاکو اور لٹیرے سیاستدانوں نے، بڑے بڑے مذھبی مگرمچھوں نے اور بیروکریسی نے قبظہ کیا ھوا ہے. یے محض 21 خاندان ہیں جنہوں نے گذشتہ 67 سالوں سے اس ملک کو اپنا غلام بنایا ھوا ھے . جو بڑی بے رحمی سے اس ملک کے عوام کا استحصال کر رھے ھیں .
آخر کس نا کردہ جرم کی سذا مل رہی ھے ان کو؟ آیا ان کا یے جرم ھے کہ یے ایک ایسے ملک میں پیدا ہوے جو خالصتا" اسلام کے نام پہ مھرض وجود میں آیا ھے. اسلام !!! ایک ایسا دین جو دنیا سے ظلم کا نظام مٹا کا عدل کا نظام غالب کرنے کے لئے دنیا میں لایا گیا تھا .
آخر کیوں انسانیت کی اتنی تزلیل ہو رہی ہے ؟ آخر کیوں ان کے بنیادی انسانی حقوق تک پورے نہیں ہو رھے.وہ حقوق جو آج سے صدیوں پہلے اسلام نے متحین کئے تھے. آخر وہ کیا بنیادی وجوہات ہیں جنکی وجہ سے ان کے حقوق گزشتہ کئ دہائیوں سے تلف ہو رہے ہیں . یے وہ چند سوالات وخیالات ہیں جنکے جوابات کو کبھی غربت اللہ کی طرف سے آزمائش تو کبھی رائج الوقت فاسق سرمایہ رارانہ نظام سے منسوب کر دیا جاتا ہے.مگر میرے خیال میں جب تک ہم ان سوالوں کے صیح جواب تک رسائ حاصل کر پائیں گے تب تک اس ملک میں رائج ظالمانہ نظام کی آگ خدانخواستہ ہمارے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی .
اور وہ بیرئر بھی شاید یہی چند سوال تھے .
                                                                                                                         بقلم تحسین رضی

No comments:

Post a Comment