Thursday 24 March 2016

Junaid Jamshed Clothes (جنید جمشید کے کرتے)

جنید جمشید کے کرتے !
یہ 2012 کی بات ہے جب میں سات سال بعد پاکستان گیا وہ بھی ایک دوست کی شادی پر. لیکن سیاپا یہ پڑ گیا کہ میرے پاس پاکستانی لباس (شلوار قمیض) نہیں تھا !اسلام آباد ائیرپورٹ اترا اور جانا بھی گاؤں تھا سوچا کچھ دو تین جوڑے پاکستانی شلوار قمیض ہی لے لوں ، دوسرے دن ابیٹ آباد میں دوست کی مہندی بھی تھی . خیر میں نے جنید جمشید کے کرتوں کا سنا ہوا تھا. کزن کو کہا چلو JJ کی دکان پر چلتے ہیں اور پھر وہاں سے کچھ لے کر گاؤں کی طرف کوچ کریں گے، آگے سے کزن نے کہا آج رہنے دو کل ابیٹ آباد جاتے وقت خرید لیں گے ۔ہماری فلائٹ اتری صبح کوئی چھ بجے تھی ! کافی انتظار کرنا پڑا . کزن نے فراخ دلی دکھاتے ہوۓ اپنے کچھ کپڑے دینے کی حامی بھر لی !
خیر دوسرے دن مہندی کے لئے ایک کرتا خریدا اس کی قیمت یاد نہیں، دس کا تھا یا بارہ کا میں نے صرف ایک دن مہندی پر پہننا تھا ! چونکہ آج کل فیس بک پر میں دیکھ رہا ہوں کچھ نام نہاد یہ که رہے ہیں کہ جنید مولوی بنا ہی اسلئے ہے کہ یہ اپنا بزنس چمکا لے .کرتوں پر اتنا منافع ، آٹھ سو کا کرتا آٹھ ہزار کا بیچ رہا ہے وغیرہ وغیرہ ! خیر جنید کے مذہبی ہونے یا نہ ہونے اور اس کے کسی نقطہ نظر مجھے کوئی سروکار نہیں ، چاہے آپ اس کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیں یا اس کو اسلام کا عظیم مبلغ مانیں مجھےاس سے بھی کچھ کوئی لینا دینا نہیں ہے ،
جیسا کہ میرا پیشه گارمنٹس اینڈ فیشن کے ساتھ منسلک ہے اسلئے گارمنٹس مینوفیکچرنگ کے بارے میں تھوڑا بہت میں بھی جانتا ہوں. پاکستان ، انڈیا ، بنگلہ دیش ،چائنا کی گارمنٹس کی فیکٹریز کے ساتھ کافی عرصہ کام کر رہا ہوں. جنید جمشید کے کرتوں کو تھوڑی دیر ایک سائیڈ پر رکھیں یہ کوئی اتنا انٹرنیشنل برانڈ نہیں ہے اب بات کرتے ہیں یورپ ،امریکا نامی گرامی ریٹیلرز کی جیسا کہ امریکن ایگل ، اے اینڈ ایف، نیکسٹ وغیرہ وغیرہ ان کے گارمنٹس پاکستان انڈیا، بنگلہ دیش اور چائنا میں ہی مینوفیکچر ہوتے ہیں اور اچھی کوالٹی کے جینس کی زیادہ سے زیادہ قیمت آٹھ سے دس ڈالر ہے لیکن جب یہ ریٹیل میں جاتی ہے دو سو پرسینٹ مارک اپ کے ساتھ فروخت کی جاتی ہے. آٹھ دس ڈالر کی جینس ریٹیل میں سو ڈالر سے پانچ سو ڈالر تک فروخت ہو رہی ہے. اس منافع سے برانڈ نے ملازمین کی سیلری ،شاپس کا کرایہ اور دوسرے اور ہیڈ جس کو فکس کاسٹ کہتے وہ بھی پورے کرنے ہوتے ہیں. بے شک برانڈڈ پروڈکٹ ایک منافع بخش کاروبارہے ، خیر جو کوئی بھی کاروبار کرتا ہے وہ منافع کے لئے ہی کرتا ہے. ان برانڈز کے سب خرچے نکال کر جو منافع ہوتا ہے وہ کوئی چالیس پرسینٹ سے لے کر اسی پرسینٹ تک ہو سکتا ہے جس کا جتنا بڑا نام اس کا اتنا زیادہ مارجن !
اب اتے جنید کے کرتوں کی طرف اس کے بھی اسی طرح فکس کاسٹ ہیں اس نے بھی منافع کے لئے کاروبار شروع کیا کوئی چونکہ یہ مولوی ہے اسلئے جملے کسے جاتے ہیں کہ آٹھ سو کا کرتا آٹھ ہزار میں بیچ رہا ، حالانکہ وہ زبردستی کسی کے ساتھ نہیں کر رہا لینے والے کی اپنی مرضی پر منحصر ہے چاہے تو وہ لے چاہے نہ لے کوئی زور زبردستی نہیں ہے لیکن اگر یہ مولوی نہ ہوتا اور سپر اسٹار سنگر ہوتا بے شک آٹھ سو کا کرتا اسی ہزار کا بھی بیچ دیتا تو کسی کا منہ تک نہ کھلتا ، پاکستان میں اور بھی کرتوں کی برانڈز ہیں ان کی بھی مینوفیکچرنگ کاسٹ اتنی ہی ہے جتنی جنید کے کرتوں کی ہے ،زیادہ سے زیادہ فرق مختلف کوالٹی کی بنا پر ایک یا دو ڈالر کا ہو سکتا ہے لیکن ان کے آٹھ سو کے کرتے سولہ سے بیس سے پچاس ہزار تک بھی فروخت ہو رہے تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ! جس نے آٹھ سو کا خریدنا ہو وہ آٹھ سو کا خرید لے اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ نہ کہ دوسروں کے پیٹ پر لات مارو .ان نام نہاد انسانیت کے پرچاروں کی منافقانہ روش کی وجہ سے لوگ تقسیم در تقسیم ہوتے جا رہے ہیں لیکن ان فیس بکی دو کوڑی کے فلاسفروں کو انسانوں سے زیادہ بندروں سے پیار ہے اسلئے یہ انسانیت کے بارے میں کبھی ایک سا پیمانہ بنا کر نہیں سوچ سکتے انہوں نے مولوی کے لئے الگ سنگرز کے لئے الگ ماڈلز کے لئے الگ اور سیاستدانوں کے لئے الگ پیمانہ بنا لیا ہے اور حد یہ کہ اپنے لئے ایک الگ یعنی مرض ایک ہے لیکن دوائی مختلف صرف کوالٹی کا فرق ہے ۔کوالٹی سے یاد آیا کہ ان انسانیت کے علمبرداروں نے تمام انسانوں کو ایک ہی کوالٹی کی دوائی تو پہنچائی نہیں آج تک کپڑے پہنچانے کی ساری ذمہ داری جنید جمشید پر کیوں ڈال رہے ہیں ۔ ؟
بقلم مولوی روکڑا

No comments:

Post a Comment